سبھی کو دشت سے دریا جدا دکھائی دیا

سبھی کو دشت سے دریا، جدا دکھائی دیا
ہمیں تو عشق میں سب ایک سا دکھائی دیا

میں آسماں کی طرف دیکھ کر ہنسوں، تو یہ لوگ
یہ پوچھتے ہیں کہ اے بھائی! کیا دکھائی دیا

یہ ایک داغ ہے دل پر، کہ ایک روزن ہے
اِسی سے خواب، اِسی سے خدا دکھائی دیا

کسی نے جھانک کے دیکھا تھا اُس دریچے سے
میں اپنے آپ سے باہر کھڑا دکھائی دیا

بہ طور آئنہ دیکھا جہاں تلک دیکھا
بہ طور عکس تو بس آئنہ دکھائی دیا

لکھا تو اور ہی کچھ تھا کھنڈر کی تختی پر
کچھ ایسے ٹوٹی کہ ’عادل‘ؔ لکھا دکھائی دیا
ذوالفقار عادل

Comments