مطمئن کب حیات ہوتی ہے

مطمئن کب حیات ہوتی ہے
دن گزرتا ہے، رات ہوتی ہے
جب ترے غم کی بات ہوتی ہے
مضطرب کائنات ہوتی ہے
دیکھئے، کس پہ ہو نگاہِ کرم
یہ مقدّر کی بات ہوتی ہے
زندگی پر ہو اعتماد کسے
زندگی بے ثبات ہوتی ہے
معتبر نامہ بر بھی ہے، لیکن
اپنی بات اپنی بات ہوتی ہے
جو گھڑی اُن کی یاد میں گزرے
حاصلِ صد حیات ہوتی ہے
ہر جگہ، ہر مقام، ہر دل میں
رونقِ حُسنِ ذات ہوتی ہے
لاکھ محفل سجایئے، لیکن
آپ کی اور بات ہوتی ہے
تخلیہ ہو، تو اُن کے جلووں کی
اچھی خاصی برات ہوتی ہے
پھر بنا لیں گے آشیاں، صیّاد !
چار تنکوں کی بات ہوتی ہے
دیکھئے اب نصیرؔ پر کس دن
نگہ التفات ہوتی ہے
پیر نصیر الدین نصیر گیلانی

Comments