سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش

سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش
افلاک پہ جتنے بھی ستارے ہیں کم و بیش

اک تیرے تغافل کو خدا رکھے وگرنہ
دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش



وه جس جگہ مارے گئے اجداد ہمارے
ہم بھی اسی دریا کے کنارے ہیں کم و بیش

موسم کی گھٹن ہو کہ زمانے کا چلن ہو
سب تیرے بچھڑنے کے اشارے ہیں کم و بیش

یہ آنکھیں اگر ہیں تو بہت کم ہیں یہ آنکھیں
ہر سمت یہاں تیرے نظارے ہیں کم و بیش

سب عشق میں اندازے غلط نکلے ہمارے
جو شرط لگائی ہے وه ہارے ہیں کم و بیش

اس گھر کی فضا نے مجھے مانا نہیں اب تک
پینتیس برس جس میں گزارے ہیں کم و بیش

جمال احسانی

Comments