آخری صف میں بھی مشکل سے کہیں آتے ہیں

آخری صف میں بھی مشکل سے کہیں آتے ہیں
ہم وہ عامی ہیں جو گنتی میں نہیں آتے ہیں
جھوٹ بولا ہے یہ اس نے،وہ بچھڑکر خوش ہے
اس کی بستی سے تو جھونکے بھی حزیں آتے ہیں
لوگ سٙر پھوڑ کے دیواروں سے خوش ہوتے ہیں
کتنی حسرت سے مکانوں میں مکیں آتے ہیں
دل پہ طاری ہے مگر عام سے چہرے کا فسوں
دل کی فہرست میں کتنے ہی حسیں آتے ہیں
گریہ زاری کا تسلسل ہی سبب ہو شاید
ایک مدت سے مجھے خواب نہیں آتے ہیں
جتنی لہریں ہیں سرِ سطحِ سمندر خالد
اتنے تیور ہی  سرِ سطحِ جبیں آتے ہیں
خالد ندیم شانی

Comments