وجود اپنا برائے عدم بناتا ہوں

وجود اپنا برائے عدم بناتا ہوں
پرانے غم سے نیا ایک غم بناتا ہوں

یہ دیکھتی ہی نہیں بولنے بھی لگتی ہے
اسی لئے تو میں تصویر کم بناتا ہوں

مرے ہنر سے بہت کینوس پریشاں ہے
میں جو بھی آنکھ بناتا ہوں نم بناتا ہوں

بنانے والا عجب ہوں کہ اب زمیں ہی نہیں
میں آسمان بھی زیر قدم بناتا ہوں

مرے علاوہ نہیں ہے کوئی حریف مرا
میں خود کو تختۂ مشقِ ستم بناتا ہوں

کسی کسی پہ ہی ہوتا ہوں منکشف غائر
مرا مزاج ہے میں دوست کم بناتا ہوں
کاشف حسین غائر

Comments