کمال یہ ہے کہ کوئی کمال ہوتا نہیں

کمال یہ ہے کہ کوئی کمال ہوتا نہیں
اور اس بساط پہ دل کو ملال ہوتا نہیں
مری زبان ہے اتنی گریز حسن طلب
ہر ایرے غیرے کے آگے سوال ہوتا نہیں
زمانہ ساز کچھ ایسے بھی میرے شہر میں ہیں
محال کام بھی جن پر محال ہوتا نہیں
حصار حسن میں، بند ادا میں آئے بغیر
کوئی خیال بھی حسن خیال ہوتا نہیں
اجڑ گئے ہیں کئی پیڑ میری بستی کے
بیان مجھ سے پرندوں کا حال ہوتا نہیں
محبتوں کے کلنڈر میں یہ خرابی ہے
کہ ختم ہجر کا کوئی بھی سال ہوتا نہیں
فراق یار ہے دراصل جائیداد جنوں
محبتوں کا اثاثہ وصال ہوتا نہیں
عزیز تجھ میں کوئی تو بڑی خرابی ہے
جو تیرا خود سے تعلق بحال ہوتا نہیں
عزیز فیصل

Comments