بکھرے ہوئے اس شہر میں چہرے بھی بہت تھے

بکھرے ہوئے اس شہر میں چہرے بھی بہت تھے
اظہار کے انداز پہ پہرے بھی بہت تھے
ہم بے سر و سامان تھے جاتے تو کدھر کو
دریا جو تھے اطراف میں گہرے بھی بہت تھے 



 ہم سے بھی رہ و رسم نبھاتا رہا، لیکن
اس چہرۂ شب تاب کے چہرے بھی بہت تھے
اک عدل ہی نایاب تھا بس شہر میں تیرے
مُنصف بھی تھے، مُجرم بھی کٹہرے بھی بہت تھے
کچھ ہم بھی تھے ناواقفِ آدابِ تمدن
کچھ خواب زمانے کے سنہرے بھی بہت تھے

سلطان رشک

Comments

Post a Comment