تیری آنکھوں میں جو اک قطرہ چھپا ہے میں ہوں

تیری آنکھوں میں جو اک قطرہ چھپا ہے، میں ہوں
جس نے چھپ چھپ کے ترا درد سہا ہے، میں ہوں
ایک پتھر کہ جسے آنچ نہ آئی، تو ہے
ایک آئینہ کہ جو ٹوٹ چکا ہے، میں ہوں
جس کو ہنس ہنس کے ہمیشہ ہی ہے ٹالا تو نے
جس نے رو رو کے تجھے اپنا کہا ہے میں ہوں
تجھ میں ڈوبی تو مجھے اپنی خبر ہی کب تھی
میں نے یہ دوسرے لوگوں سے سنا ہے، میں ہوں
اس نے جب بھئ کہا کوئی نہیں شاید اپنا
میں نے بے ساختہ ہر بار کہا ہے، میں ہوں
میں رباب اور کسی کو تجھے دیتی کیسے
تیری خاطر جسے اب میں نے چنا ہے، میں ہوں
فوزیہ رباب

Comments