نم دیدہ دعاؤں میں اثر کیوں نہیں آتا

نم دیدہ دُعاؤں میں اثر کیوں نہیں آتا 
تُو عرشِ تغافُل سے اُتر کیوں نہیں آتا
مَیں آپ کے پَیروں میں پڑا سوچ رھا ہوں
مَیں آپ کی آنکھوں کو نظر کیوں نہیں آتا



 اب شام ہوئی جاتی ہے اور شام بھی گہری
اے صُبح کے بُھولے ہوئے، گھر کیوں نہیں آتا
چوکھٹ سے ہی لپٹا ہے کئی دن سے سوالی
عاشق ھے تو دہلیز گُذر کیوں نہیں آتا
کرتے ھیں محبت کی طرح کارِ ہوس لوگ
ہم بے ہنَروں کو یہ ہنر کیوں نہیں آتا
دریائے محبت سے ملے ھیں کئی کنکر
مُٹھی میں ترے جیسا گُہَر کیوں نہیں آتا
کیوں خون کے قطرے نہیں لہراتے رگوں میں ؟
اے دل ! تری شاخوں پہ ثمر کیوں نہیں آتا
وہ عقل کے اندھے ہیں جو کہتے ہیں کہ فارس
اللّہ اگر ہے تو نظر کیوں نہیں آتا
رحمان فارس

Comments