اس طرف ہم نے کبھی دھیان نہیں کرنا ہے

اس طرف ہم نے کبھی دھیان نہیں کرنا ہے
ہجر کو شاملِ امکان نہیں کرنا ہے
اتنے پیاروں کو گنوایا ہے، کہ اِس سال ہمیں
اب کِسی بات نے حیران نہیں کرنا ہے



 آگ سے آگ جلانی ہے ضرورت کے لیے
جسم کو جسم کا عنوان نہیں کرنا ہے
جِیتنے والا معافی کا طلب گار رہے
اس قدر کھیل کو آسان نہیں کرنا ہے
خواب جھوٹے بھی کئی ان کو دکھانے ہیں، مگر
تیری آنکھوں کا بھی نقصان نہیں کرنا ہے
شعر کہنے ہیں مگر ہم نے بنامِ جِدّت
پڑھنے والوں کو پریشان نہیں کرنا ہے
اُس نے رکھنا ہے مجھے دل میں ہمیشہ ساحر
پَر کسی درد کا درمان نہیں کرنا ہے
جہانزیب ساحر

Comments