بھر بھی جائیں گے اگر سینہء صد چاک کے زخم

بھر بھی جائیں گے اگر سینہء صد چاک کے زخم
اسی حالت میں رہیں گے مرے ادراک کے زخم
مجھ کو پانی کے رویے سے ہوا اندازہ
میں نے دیکھے نہیں ڈوبے ہوئے تیراک کے زخم
ایسی پاکیزہ مسیحائی کو رکھ پاس اپنے
چھو نہیں سکتا اگر بندہ ناپاک کے زخم
یہ تو ہم اپنے تئیں اچھے بنے پھرتے ہیں
کہاں معصوم کے مرہم کہاں چالاک کے زخم
پھٹے کپڑوں میں بھی ملنے لگی دنیا جھک کر
ڈھک دئے جب سے  نئی شال نے پوشاک کے زخم
اظہر فراغ

Comments